بیوگی ازدواجی زندگی کا ایک ایسا رخ ہے جس کی تمام تر اہمیت اور امکانیت کے باوجود ہر جوڑا اس سے نگاہیں چراتا ہے، اسے نظر انداز کرتا ہے اور اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا کیے رکھتا ہے کہ ہم ساری زندگی یوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کا سہارا بنے رہیں گے۔ ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے رہنا بڑا خوش آئند تصور ہے۔ لیکن حقیقی زندگی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
میاں بیوی میں سے کسی ایک کا متوقع وقت سے پہلے وفات پا جانا کوئی انہونی نہیں۔ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور کچھ بعید نہیں کہ بیوی شوہر سے یا شوہر بیوی سے بہت پہلے اس دنیا سے گزر جائے۔ بیوی کا گزر جانا شوہر کے غم و اندوہ کا سبب ضرور بنتا ہے لیکن اپنی زندگی کو ازسرنو ترتیب دینے اور خود کو سنبھالنے میں اسے کچھ زیادہ مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ وہ ایک مرد ہے اور مردوں کو بچپن سے ہی اپنا خیال رکھنے اور خود کو سنبھالنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں شوہر کا گزر جانا بیوی کیلئے ایک ایسا سانحہ ہوتا ہے جو نہ صرف اس کی جذباتی بلکہ معاشی اور معاشرتی زندگی کو بھی تہ و بالا کر کے رکھ دیتا ہے۔ ہمارے یہاں عورتوں کو خودمختاری، خود انحصاری کا سبق نہیں دیا جاتا بلکہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ساری عمر دوسروں کا سہارا لے کر چلنا ان کا مقدر ہے اور اپنے طور پر زندگی گزارنا ان کیلئے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شوہر کی موت کے بعد ایک بیوی کیلئے زندگی گزارنا بجائے خود ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے خصوصاً اس وقت جب وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکی ہو جب کوئی دوسرا جیون ساتھی تلاش کرنا اس کیلئے ممکن نہ رہے۔ تب اس سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنا گھر خود چلائے، اپنے بچے خود پالے اور ان کی ذمہ داریوں سے خود سبکدوش ہو۔ عزیز رشتہ دار ایک حد تک مدد کر سکتے ہیں لیکن ساری عمر ساتھ نہیں نبھا سکتے۔ بعضوں کو تو ایک حد تک ساتھ دینے والے بھی میسر نہیں آتے۔ ایسی عورتوں کیلئے شوہر کے بغیر زندگی ایک ڈراﺅنے خواب کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ سب کو ایسی زندگی سے محفوظ رکھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی زندگی بہت سی عورتوں کے حصے میںچار و ناچار آہی جاتی ہے۔ ایسی عورتوں کو ہم نے بھی دیکھا ہے اور آپ نے بھی دیکھا ہو گا۔
بیوگی کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے اور اس وقت یہ اس سے بھی مشکل ہو جاتی ہے جب بیوہ اس زندگی کے اصول و ضوابط سے ناآشنا ہو۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مرد یہ سوچے کہ میرے بعد میری بیوی اور میرے خاندان کا کیا بنے گا؟ جب تک ہاتھ پیر چلتے رہتے ہیں وہ ایسا خیال بھی دل میں نہیں لاتا۔ جب ہڈیاں کھڑکھڑانے لگتی ہیں اور جوڑ فریاد کرنے لگتے ہیں تب اسے یہ سوچنے کی فرصت ملتی ہے کہ اپنے گھر والوں کیلئے کچھ ایسا بندوبست کر جاﺅں کہ میری موت کے بعد انہیں مالی مسائل سے عہدہ برآ ہونے میں دقت پیش نہ آئے۔ایسا بندوبست کیا ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کوئی جائیداد یا روپیہ پیسہ وغیرہ ان کیلئے محفوظ رکھا جائے۔
یہ طریقہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس کی افادیت دیرپا نہیں ہوتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جائیداد بنانا یا روپیہ پیسہ اکٹھا کرنا ہر ایک کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔ مڈل کلاس کے گھروں میں خصوصاً جائیداد بنانے یا اپنی موت کے بعد کافی روپیہ پیسہ چھوڑ جانے کی روایت بہت کم نظر آتی ہے۔ کچھ عرصہ تو اس رقم کے سہارے گزارا جا سکتا ہے لیکن خالی بیٹھ کر کھاتے رہنے کی بدولت یہ بھی جلد ہی جواب دے جاتی ہے ۔پھر آج کل کی مہنگائی اور افراط زر کے دور میں تو ایسی رقم پڑے پڑے بھی گھٹتی جاتی ہے۔ بھلے آپ اسے خرچ کریں نہ کریں۔ چونکہ زیادہ تر خواتین پیسہ سنبھالنے کے بنیادی اصولوں سے ناواقف ہوتی ہیں اس لیے پیسہ طریقے سلیقے سے خرچ کرنا ان کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ عموماً یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ خاوند کی چھوڑی ہوئی رقم کچھ عرصہ کے بعد ختم ہو گئی اور گھر والے پھر دو وقت کی روٹی کیلئے دوسروں کا منہ دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔
ان تمام حقائق کے تناظر میں اپنی بیوی کو بیوگی کے اصولوں سے آشنا کرنا کسی بھی مرد کی پہلی ترجیحات میںشامل ہونا چاہیے۔ کہتے ہیں موت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ موت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ اپنی آخرت کے حوالے سے بھی اور اپنے گزر جانے کے بعد اپنی بیوی بچوں کی فلاح کیلئے بھی۔ یہ ایک معقول طرز فکر ہے اور آپ کی توجہ کا نہایت مستحق بھی۔ اس سے آپ کو ایک اور فائدہ ہو گا کہ مالی معاملات میں بیوی کو تربیت دینے کے بعد آپ کے اپنے بوجھ میں کمی ہو جائے گی۔ آپ غیر ضروری تفکرات سے نجات پا سکیں گے اور زیادہ اچھے طریقوں سے اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں گے۔اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ گھریلو معاملات چلانے کی ذمہ داری بیوی کے حوالے کر دیجئے۔ اپنی مردانہ انا کو آڑے نہ آنے دیجئے اور گھر کے مالی معاملات بیوی کے حوالے کر دیجئے۔ ممکن ہے کہ شروع میں انتظامی حوالے سے اس سے کچھ غلطیاں سرزد ہوں‘ گھبرانے یا پریشان ہونے کے بجائے اس کی رہنمائی کیجئے‘ خود کما کر لائیے اور کمائی کو اچھے انداز میں صرف کرنے کا موقع اسے فراہم کیجئے۔ اس کی مالی تربیت بھی ہو گی اور آپ کی ذمہ داریوں کے بوجھ میں کچھ کمی بھی آجائے گی۔
جب بیوی گھر کے مالی معاملات کو سنبھالنے لگے تو اسے علم ہو گا کہ میرے شوہر کی مالی پوزیشن کیا ہے، وہ کیا کرتا ہے اور کن کن طریقوں سے گزارے لائق رقم کا بندوبست کرتا ہے۔ اپنے شوہر کے کاروبار یا ملازمت کے اسرار و رموز اس کی سمجھ میں آنے لگیں گے اور بہت ممکن ہے کہ آگے چل کر وہ ایسے معاملات میں اپنے شوہر کو مفید مشورے دینے کے قابل ہو سکے۔ بہت سی خواتین جزئیات پر نگاہ رکھنے کی قد ر تی صلاحیت سے مالا مال ہوتی ہیں۔ مرد اپنی مصروف ز ند گی کی بنا پر ایسی باتیں نوٹ نہیں کر سکتے ۔ جو خواتین کی نگاہ میں آجاتی ہیں۔ مالی معاملات کی سوجھ بوجھ حاصل کر لینے کے بعد آپ کی بیوی آپ کی بہترین مالی مشیر ثابت ہو سکتی ہے۔ شوہر کی موت کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے روپے پیسے کو اچھے انداز میں استعمال کرنا اس کیلئے ایک اضافی بونس کی طرح ہو گا۔ گھر کے سربراہوں کی موت کے بعد ایک اور بڑا مسئلہ جس سے پسماندگان کا واسطہ پڑتا ہے یہ ہے کہ وہ سربراہ کے مالی معاملات سے یکسر ناواقف ہوتے ہیں۔ نہ انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ مرنے والے نے کس کا کیا دینا تھا اور نہ یہ پتہ ہوتا ہے کہ کس سے کیا لینا تھا۔ اس کے چھوڑے ہوئے کاروبار کو سنبھالنے کا تو خیر ذکر ہی کیا۔ بہت سے گھر والے تو کاروبار کے بنیادی اثاثوں اور طریقہ کار سے ہی ناواقف ہوتے ہیں۔ بہت کم بیویاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں اپنے خاوند کے کاروبار، سرمایہ کاریوں ،آمدنی، قرضوں اور بجٹ کا علم ہوتاہے۔ جب یہ بوجھ ایک دم آکر سر پر گرتا ہے تو ان بیچاریوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں۔ جن مسائل کے متعلق ساری زندگی انہوں نے سوچا بھی نہیں ہوتا ان سے واسطہ پڑتا ہے تو زندگی کا ایک نیا رخ سامنے آتا ہے۔ ایک ایسا رخ جس کے وجود تک سے وہ ناواقف ہوتی ہیں۔ اپنے طور پر کچھ عرصہ مقابلہ کرنے کی کوشش کرکے تھک ہار کر وہ ہتھیار پھینک دیتی ہیںاور نتیجہ یہ کہ اچھے خاصے کاروبار چلتے چلتے ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ سمجھدار اور مخلص سربراہ یہ حقیقی روپ دیکھ کر اپنے اہل خانہ بالخصوص بیوی کو پہلے ہی ایسے معاملات سے نبردآزما ہونے کا طریقہ سکھا دیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ محبت کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اپنے چاہنے والوں کو خود پر انحصار کرنا سکھایا جائے بلکہ محبت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے پیاروں کو خود مختاری کا سبق دیا جائے تاکہ کل کوئی ناگہانی صورت حال آپڑنے کی صورت میں وہ اپنا خیال رکھ سکیں۔ یہ ایک ایسا فرض ہے جس کی ادائیگی آپ پر لازم ہے۔ یہ مضمون انہی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 495
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں